Aller au contenu principal

سلطنت عثمانیہ کے سلاطین کی فہرست


سلطنت عثمانیہ کے سلاطین کی فہرست


سلطنت عثمانیہ، کی حکومت جولائی 1299ء میں قائم ہوئی اور یکم نومبر 1922ء تک برقرار رہی۔ ان623 برسوں تک 36 عثمانی سلاطین نے فرماں روائی کی۔ آل عثمان کے آخری سلطان عبدالمجید ثانی تھے جنھیں رسماً خلیفہ مقرر کیا گیا تھا اور 3 مارچ 1924ء کو بالآخر انھیں معزول کر دیا گیا۔ ان کی معزولی پر سلطنت عثمانیہ کا عہد ختم ہو گیا۔ اپنے دور عروج میں سلطنت عثمانیہ نے شمال میں ہنگری سے لے کر جنوب میں یمن تک اور مغرب میں الجزائر سے لے کر مشرق میں عراق تک حکومت کی۔ سلطنت عثمانیہ کا سب سے پہلا دار الحکومت 1280ء میں سوغوت اور پھر 1323ء یا 1324ء تک بورصہ رہا۔ 1363ء میں سلطنت کے دار الحکومت کو ادرنہ (ایڈریانوپل) کی فتح کے بعد مراد اول نے ادرنہ منتقل کر دیا تھا۔ اور 1453ء میں محمد ثانی کی فتح قسطنطنیہ کے بعد قسطنطنیہ (موجودہ استنبول) میں منتقل کر دیا گیا۔

سلطنت عثمانیہ 13ویں صدی کے آخر میں وجود میں آئی اور اس کا پہلا حکمران عثمان اول تھا۔ عثمان کا تعلق اوغوز ترکوں کے قائی قبیلہ سے تھا۔ عثمان نے عثمانی خاندان کی بنیاد رکھی وہ 36 سلطانوں کے ادوار میں چھ صدیوں تک قائم رہی۔ سلطنت عثمانیہ مرکزی طاقتوں کی شکست کے نتیجے میں ختم ہو گئی، جن کے ساتھ اس نے پہلی جنگ عظیم کے دوران اتحاد کیا تھا۔ فاتح اتحادیوں کے ذریعہ سلطنت کی تقسیم اور اس کے نتیجے میں ترکی کی آزادی کی جنگ اور 1922ء میں سلطنت کے خاتمے اور جدید جمہوریہ ترکی کی پیدائش کا باعث بنی۔

القابات

سلطان کو پادشاہ بھی کہا جاتا تھا۔ عثمانی استعمال میں لفظ "پدیشا" عام طور پر استعمال ہوتا تھا سوائے اس کے کہ "سلطان" کا براہ راست نام لیا جائے۔

نسلی اقلیتوں کی زبانوں میں سلطان کے نام :

  • عربی : کچھ دستاویزات میں "پادشاہ" کی جگہ " ملک " ("بادشاہ")
  • بلغاریائی : پہلے ادوار میں بلغاریائی لوگ اسے " زار " کہتے تھے۔ 1876 کے عثمانی آئین کے ترجمے میں زار کی بجائے "سلطان" اور "پدیشاہ" (پدیسیکس) کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔
  • یونانی : پہلے ادوار میں یونانی بازنطینی سلطنت کے طرز کا نام " باسیلیوس " استعمال کرتے تھے۔ 1876 کے عثمانی آئین کے ترجمے میں اس کی بجائے "سلطان" یا "سلطانوز" اور "پدیشاہ" (پدیسیکس) کے الفاظ استعمال کیے گئے تھے۔
  • عبرانی ہسپانوی : پرانی دستاویزات میں، ("ال رے") لفظ بادشاہ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

سلطنت عثمانیہ کا ریاستی نظام

سلطنت عثمانیہ ایک مطلق بادشاہت تھی۔ پندرہویں صدی تک سلطان کے تحت سیاسی، فوجی، عدالتی، سماجی اور مذہبی صلاحیتوں میں کام کیا جاتا تھا۔ وہ نظریاتی طور پر صرف خدا اور خدا کے قانون (اسلامی شریعت کے لیے ذمہ دار تھا) جس کے وہ چیف ایگزیکٹو تھے۔ بادشاہ کی طرف سے ہر قانون فرمان کی صورت میں جاری کیا جاتا تھا۔ تمام بادشاہ سپریم ملٹری کمانڈر تھے۔ عثمان (وفات 1323-4) ارطغرل کے بیٹے عثمانی ریاست کا پہلا حکمران تھا، جس نے اپنے دور حکومت میں بازنطینی سلطنت کی سرحد پر واقع بتھینیا کے علاقے میں ایک چھوٹی سلطنت قائم کی۔ 1453ء میں محمد فاتح کی فتح قسطنطنیہ کے بعد، عثمانی سلاطین نے خود کو رومی سلطنت کا جانشین ماننا شروع کیا اور وہ کبھی کبھار قیصر روم کا لقب استعمال کرتے تھے۔ عثمانی سلاطین اپنے لیے شہنشاہ اور خلیفہ کا لقب بھی استعمال کرتے تھے۔ نئے تخت نشین عثمانی حکمرانوں کو عثمان کی تلوار دی جاتی تھی، یہ ایک اہم تقریب تھی جو یورپی بادشاہوں کی تاجپوشی کے مترادف تھی۔

اگرچہ نظریہ اصولی طور پر مطلق العنان تھا، لیکن عملی طور پر سلطان کے اختیارات محدود تھے۔ سیاسی فیصلوں میں خاندان کے اہم ارکان، افسر شاہی اور فوجی اداروں کے ساتھ ساتھ مذہبی رہنماؤں کی رائے اور رویوں کو بھی مدنظر رکھنا پڑتا تھا۔ سولہویں صدی کی آخری دہائیوں کے آغاز سے، سلطنت میں عثمانی سلاطین کا کردار کم ہونا شروع ہوا، اس دور کو عثمانی سلطنت کی تبدیلی کا دور کہا جاتا ہے۔ وراثت میں تخت حاصل کرنے سے روکے جانے کے باوجود شاہی حرم کی خواتین خاص طور پر حکمران سلطان کی والدہ، جو والدہ سلطان کے نام سے جانی جاتی تھیں نے پردے کے پیچھے رہ کر ایک اہم سیاسی کردار ادا کیا اور اپنے دور میں سلطنت پر مؤثر طریقے سے حکمرانی کی۔ ا س دور کو سلطنت عثمانیہ کی خواتین کی سلطنت بھی کہا گیا۔

آئینی بادشاہت عبدالحمید دوم کے دور میں قائم کی گئی تھی، جو اس طرح سلطنت کا آخری مطلق العنان حکمران اور پہلا آئینی بادشاہ بن گیا۔ اگرچہ عبد الحمید دوم نے 1878ء میں ذاتی حکمرانی میں واپس آنے کے لیے پارلیمنٹ اور آئین کو ختم کر دیا تھا، لیکن انھیں 1908ء میں دوبارہ آئین سازی کو بحال کرنے پر مجبور کیا گیا اور انھیں معزول کر دیا گیا۔ 2021ء میں عثمانی خاندان کے سربراہ ہارون عثمان ہیں، جو عبدالحمید ثانی کے پڑپوتے ہیں۔

عثمانی سلاطین کی فہرست

نیچے دی گئی جدول میں عثمانی سلطانوں کے ساتھ ساتھ آخری عثمانی خلیفہ کی بھی ترتیب میں فہرست دی گئی ہے۔ طغرا وہ خطاطی کی مہریں یا دستخط تھے جو عثمانی سلاطین استعمال کرتے تھے، جو وہ تمام سرکاری دستاویزات کے ساتھ ساتھ سکوں پر بھی آویزاں کرتے تھے اور سلطان کی شناخت میں اس کی تصویر سے کہیں زیادہ اہم تھے۔ "جائزہ اور مختصر واقعات " کالم میں ہر سلطان کی ولدیت اور دور حکومت کے بارے میں مختصر معلومات موجود ہیں۔ مؤرخ کوارٹرٹ کے مطابق : جب ایک سلطان وفات پا جاتا تھا، تو اس کے بیٹوں کو تخت کے لیے ایک دوسرے سے لڑنا پڑتا تھا جب تک کہ کوئی فاتح سامنے نہ آئے۔ لڑائی جھگڑوں اور متعدد برادرانہ قتلوں کی وجہ سے اکثر سلطانوں کی وفات کی تاریخ اور جانشینی کی تاریخ کے درمیان وقت کا فرق ہوتا تھا۔ 1617ء میں جانشینی کا قانون بدل کر ایک ایسے نظام میں تبدیل کر دیا گیا جسے سنیارٹی ( اکبریت ) کہتے تھے۔ جس کے تحت تخت خاندان کے سب سے پرانے مرد کے پاس چلا جاتا تھا۔ 17 ویں صدی کے بعد سے ایک متوفی سلطان کا جانشین اس کا بیٹا ہوتا تھا جیسا کہ عام طور پر چچا یا بھائی یا بھتیجا ہوتے تھے۔ اس فہرست میں عثمانی مداخلت کے دوران دعویدار اور شریک دعویدار بھی درج ہیں، لیکن وہ سلطانوں کی رسمی تعداد میں شامل نہیں ہیں۔

سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد کے خلیفہ

بعد از خاتمہ سلطنت عثمانیہ

  • عبد المجید ثانی (1926ء تا 1944ء)
  • احمد چہارم نہاد (1944ء تا 1954ء)
  • عثمان چہارم فواد (1954ء تا 1973ء)
  • محمد عبد العزیز ثانی (1973ء تا 1977ء)
  • علی واسب (1977ء تا 1983ء) *
  • محمد ہفتم اورخان (1983ء تا 1994ء)
  • ارطغرل عثمان پنجم (1994ء تا 2009 )
  • بایزید عثمان (2009 تا حال)

عثمانی شجرہ نسب

مزید دیکھیے

  • عثمانی خاندان
  • عثمانی شجرہ نسب (آسان)
  • والدہ سلطان
  • فہرست وزرائے اعظم سلطنت عثمانیہ
  • سلطنت عثمانیہ کے امیر البحر
  • عثمان اوغلو خاندان
Collection James Bond 007

ترقیم

حوالہ جات

کتابیات


Text submitted to CC-BY-SA license. Source: سلطنت عثمانیہ کے سلاطین کی فہرست by Wikipedia (Historical)


ghbass