![اسلامی جمعیت طلبہ اسلامی جمعیت طلبہ](/modules/owlapps_apps/img/nopic.jpg)
اسلامی جمعیت طلبہ، طلبہ کی ایک تنظیم ہے جو پاکستان کے تعلیمی اداروں میں اسلامی اقدار کی ترویج کے لیے کوشاں ہے جس کا قیام 23 دسمبر 1947ء کو عمل میں آیا تھا۔ جمعیت کے پہلے صدر یعنی ناظم اعلیٰ ظفر اللہ خان کے مطابق انھوں نے 1945ء میں ایک ایسی تنظیم کی ضرورت کو محسوس کیا جو اسلامی خیالات رکھنے والے طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرسکے۔ اس مقصد کے لیے انھوں نے 50 طلبہ کو اکٹھا کیا اور مجلسِ تعمیرِ افکارِ اسلامی کے پرچم تلے ان کی اسلامی خطوط پر ذہن سازی کی۔ مئی 1947ء میں متحدہ ہندوستان (پاک و ہند) سے طلبہ دارالسلام پٹھان کوٹ میں جمع ہوئے جہاں یہ فیصلہ کیا گیا کہ پورے خطہ سے اسلامی ذہن رکھنے والے طلبہ کا ایک اجتماع اگست کی تعطیلات میں دہلی میں منعقد کیا جائے گا۔ مگر اس اجلاس سے قبل ہی 3 مئی 1947ء کو ہندوستان کی تقسیم کے منصوبے کا اعلان کر دیا گیا جس کے باعث اس اجتماع کا انعقاد ناممکن ٹھہرا۔
قیام پاکستان کے بعد نومبر 1947ء میں طلبہ سے رابطوں اور اخبارات کے ذریعے اعلان کیا گیا کہ اسلام سے محبت کرنے والے طلبہ کا ایک اجتماع 21 دسمبر 1947ء کو لاہور میں منعقد ہوگا۔ اس کے نتیجے میں 25 طالب علم جمع ہوئے اور یوں 25 دسمبر 1947ء کو اسلامی جمعیت طلبہ کا قیام عمل میں آگیا۔ 21 تا 23 دسمبر جاری رہنے والے اس تین روزہ اجتماع میں شرکاء نے اپنی کارکردگی اور تجربات سے اک دوسرے کو آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ کس طرح تعلیمی اداروں اور طلبہ میں دعوت دین کا کام کر رہے ہیں، اس دوران میں طویل بحث و مباحثہ کے بعد مستقبل کے پروگرام کی منصوبہ بندی کی گئی۔
اسلامی جمعیت طلبہ کے پہلے اجتماع میں طلبہ کے علاوہ سیدابوالاعلیٰ مودودی، نعیم صدیقی اور عبدالمجید قریشی نے بھی شرکاء سے خطاب کیا۔ مقررین نے اس موقع پر مختلف اسلامی موضوعات پر تقاریر کرتے ہوئے اسلامی اور فلاحی معاشرے کے قیام میں طلبہ کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
تاسیسی اجتماع کے تیسرے روز سیدابوالاعلیٰ مودودی کے خطاب سے قبل ایک مباحثے میں نام کی تجویز کا مسئلہ زیر بحث آیا۔ طلبہ کی خواہش تھی کہ ایک ایسا نام تجویز کیا جائے جو بیک وقت طلبہ، اجتماعیت اور اسلام کا عکاسی کرتا ہو۔ مولانا مودودی سے جب اس بابت رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ تنظیم کا نام انجمنِ نوجوانانِ اسلام رکھا جائے مگر یہ نام طلبہ کو پسند نہ آیا۔ ابھی یہ بحث جاری تھی کہ وہاں سے مولانا نصراللہ خان عزیز (مرحوم) گذرے جن کے استفسار پردرپیش مسئلہ بتایا گیا۔ انھوں نے برجستہ کہا کہ تینوں عناصر کی نمائندگی جو نام کرسکتاہے وہ اسلامی جمعیت طلبہ ہے۔ اس نام کو طلبہ نے بے حد پسند کیا اور یہی نام طے پایا۔ سید مودودی کے تجویز کردہ نام قبول نہ کرنے سے جمعیت کے اندر شورائیت کے نظام یعنی مشورے کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اس یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جمعیت روز اول سے ہی ایک خود مختار طلبہ تنظیم ہے، اس وقت بھی طلبہ کو اتنا حق حاصل تھا کہ وہ سید مودودی کے تجویز کردہ نام کو قبول کرنے سے انکار کرسکیں۔
اسلامی جمعیت طلبہ کا منشور
اسلامی جمعیت طلبہ نے تعلیمی اداروں اور طلبہ میں غیر اسلامی نظریات بشمول سرمایہ دارانہ ذہنیت اور کمیونزم کا بھرپور مقابلہ کیا۔ جمعیت نے طلبہ اور تعلیم یافتہ طبقے کے اندر یہ سوچ پروان چڑھائی کہ اسلام آج بھی واحد ذریعہ نجات ہے اور قرآن و سنت ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔
اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان نے کئی شعبے اور ادارے قائم کیے ہیں۔ جن میں نمایاں ادارہ مطبوعات طلبہ ، ماہنامہ ہم قدم لاہور ،شعبہ امور خارجہ، شعبہ تجزیہ وتصنیف ، شعبہ تجزیہ و تحقیق شامل ہے۔
جمعیت نے طلبہ حقوق کے لیے طویل جدوجہد کی اور اس کے لیے بے شمار قربانیاں دیں، جن میں خواتین یونیورسٹی کا قیام، مخلوط نظام تعلیم کا خاتمہ، اسلامی نظام تعلیم کا نفاذ، تعلیمی اداوں میں نئے آنے والے طلبہ کو فول ڈے کے نام پر تضحیک کا نشانہ بنانے کی روک تھا شامل ہیں۔ مختلف تعلیمی اداوں میں طلبہ کو سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی تنظیم نے جدوجہد کی اور تعلیمی اداروں میں بدعنوانیوں کو بے نقاب بھی کیا اور اس کی روک تھام کے لیے جدوجہد کی۔ مسائل اور مطالبا کے حوالے سے چارٹر آف ڈیمانڈ کے نام سے مطالبات کی فہرست مرتب کی جاتی رہی اور طلبہ میں جائز اور قانونی حقوق کے حصول کے لیے شعور کو بیدار کیا گیا۔
جمعیت نے کئی مقامات پر طلبہ کے لیے مفت ٹیوشن اور امتحانات کی تیاری کے لیے تجربات کا انتظام بھی طویل عرصے شروع کر رکھا ہے۔
پاکستان میں جب اسلامی سیاسی جماعتوں نے 1953ء میں اسلامی آئین کے لیے جدوجہد کا آغاز کیا تو جمعیت نے اس کی بھر پور حمایت کی اور اس کے لیے ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں دستخطی مہم چلائی گئی۔ اسی سال جمعیت نے طلبہ کی فلاح کے لیے بھی مہم شروع کی۔
جمعیت نے 1953ء میں ہونے والے پاک امریکا فوجی تعاون کے معاہدے کے خلاف بھی مہم چلائی اور اس معاہدے کو آئندہ پاکستان کی بقاء اور آزادی و خود مختاری کے خلاف سمجھتے ہوئے اس کی بھرپور مخالف کی۔
جمعیت نے 1954ء میں یونین کے الیکشن میں پہلی کامیابی کراچی کے اردو سائنس کالج میں طلبہ یونین کا انتخاب جیت کر حاصل کی، اسی برس مصر میں اسلامی تنظیم اخوان المسلمین کے رہنماؤں پر ہونے والے انسانیت سوز مظالم پر بھی طلبہ نے جمعیت کے پلیٹ فارم سے احتجاج کیا۔
اسلامی جمعیت طلنہ نے اسلامی فکر رکھنے والے طلبہ کی ایک بہت بڑی تعداد کو طلبہ کے پلیٹ فارم سے تربیت فراہم کی جو آج پاکستان کی مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں شامل ہوکر ملک و قوم کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔ جمعیت طلبہ پر بعد از تعلیم کسی بھی مخصوص سیاسی جماعت بشمول جماعت اسلامی میں شمولیت کی پابندی عائد نہیں کرتی نہ ہی ان سے کوئی وعدہ لیا جاتا جس کے باعث جمعیت کے سابقین آج پاکستان کی مختلف سیاسی جماعتوں میں شامل ہیں جن میں سے چند کے نام ذیل کی فہرست میں درج ہیں۔
Owlapps.net - since 2012 - Les chouettes applications du hibou