Aller au contenu principal

محمود حسن دیوبندی کے شاگردوں کی فہرست


محمود حسن دیوبندی کے شاگردوں کی فہرست


محمود حسن دیوبندی جو شیخ الہند کے نام سے معروف ہیں، دار العلوم دیوبند کے پہلے طالب علم اور دار العوم کے بانی محمد قاسم نانوتوی کے تین ممتاز تلامذہ میں سے ایک تھے۔ انھوں نے 1920ء میں علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے افتتاحی جلسے کی صدارت کی اور اس کا سنگِ بنیاد رکھا۔ انھوں نے اردو زبان میں قرآن کا ترجمہ کیا، جو جنوبی ایشیا کے تراجم میں سے معتبر ترین تراجم میں مانا جاتا ہے۔

محمود حسن دیوبندی کی پیدائش 1851ء میں بریلی میں ہوئی۔انھوں نے دار العلوم کے قیام سے قبل میرٹھ میں محمد قاسم نانوتوی سے تعلیم حاصل کی۔ جوں ہی محمد قاسم نانوتوی نے دیگر علما کے ہمراہ دار العلوم دیوبند قائم کیا، محمود حسن دیوبندی اس ادارے کے پہلے طالب علم بنے۔ ان کے استاذ محمود دیوبندی تھے۔انھوں نے 1873ء میں دار العلوم دیوبند سے اپنی تعلیم کی تکمیل کی۔

تعلیم کی تکمیل کے بعد محمود حسن دیوبندی کو دار العلوم دیوبند کا استاد مقرر کیا گیا۔1877 میں وہ اپنے استاد محمد قاسم نانوتوی، رشید احمد گنگوہی اور محمد یعقوب نانوتوی کے ہمراہ حج کے لیے روانہ ہوئے۔ دوران حج ان کی ملاقات امداد اللہ مہاجر مکی سے ہوئی جن سے ان کو اجازت بیعت و خلافت حاصل ہے۔ چھ ماہ کے بعد حج سے واپسی کے بعد دار العلوم میں تدریسی خدمات میں مشغول ہوئے۔محمود حسن دیوبندی 1890ء میں دار العلوم دیوبند کے صدر مدرس منتخب کیے گئے۔ 1905ء میں رشید احمد گنگوہی کی وفات کے بعد وہ دار العلوم کے سرپرست بنائے گئے۔

29 اکتوبر 1920ء کو محمود حسن دیوبندی نے علی گڑھ میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کے افتتاحی جلسے کی صدارت کی اور جامعہ کا سنگ بنیاد رکھا۔ علی گڑھ سے اگلے روز واپس ہونے کے بعد مختار احمد انصاری کے اصرار پر دہلی چلے گئے۔ محمود حسن دیوبندی کا 30 نومبر 1920ء کو دہلی میں انتقال ہوا۔

پروفیسر ابراہیم موسی، شیخ الھند کے شاگردوں پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

ان کے شاگردوں نے مدرسہ نیٹورک میں شہرت حاصل کی اور جنوبی ایشیاء میں عوامی زندگی کی بہتری کے لیے خدمت انجام دی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی جیسے مذہبی اعلیٰ تعلیم، سیاست اور اداروں کی تعمیر میں حصہ لیا۔

دار العلوم دیوبند میں تدریس کے دوران محمود حسن دیوبندی سے پڑھنے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ ان کے بیشتر شاگرد ایسے ہیں جو اپنے آپ میں ایک انجمن اور تحریک ہیں۔ اشرف علی تھانوی جو حکیم الامت کے نام سے معروف ہیں، وہ تصوف میں اپنا مقام رکھتے ہیں اور ان کے مریدین کی تعداد بہت ہے۔ ان کی تصانیف آٹھ سو سے زیادہ ہے۔انور شاہ کشمیری علم حدیث میں اپنا مقام رکھتے ہیں ۔ شبیر احمد عثمانی پاکستان کے بانیوں میں سے ہیں اور عزیز الرحمن عثمانی دار العلوم دیوبند کے اولین مفتی۔

محمود حسن دیوبندی کے شاگرد محمد الیاس کاندھلوی نے مشہور اصلاحی تحریک تبلیغی جماعت شروع کی۔ عبید اللہ سندھی نے ولی اللہی فلسفے کی تعلیم کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بیت الحکمہ سینٹر قائم کیا۔ محمد شفیع دیوبندی پاکستان کے قیام کے بعد وہاں کے مفتی اعظم کے عہدہ پر فائز ہوئے اور جامعہ دارالعلوم کراچی کی بنیاد رکھی۔ مناظر احسن گیلانی اپنی تصانیف کے لیے معروف ہوئے۔ گیلانی کے بارے میں انھی کے شاگرد محمد حمید اللہ کا خیال ہے کہ:

ہمالیہ تلے کے براعظم کی ڈیڑھ دو درجن جامعات میں سب سے کم دہریت اگر کسی جگہ پھیل سکی تو وہ جامعہ عثمانیہ رہی ہےـ اور اس کا سہرا بڑی حد تک صرف مولانا سید مناظر احسن گیلانی کے سر رہا ہے۔

محمود حسن دیوبندی کے شاگرد حافظ محمد احمد دار العلوم دیوبند کے 35 سال تک مہتمم رہے۔ حسین احمد مدنی دار العلوم کے سابق صدر مدرس اور جمعیت علمائے ہند کے سابق صدر ہونے کے علاوہ بھارت کے تیسرے بڑے شہری اعزاز پدم بھوشن کے اولین وصول کنندگان میں سے ایک ہیں۔ ثناء اللہ امرتسری بھی تفسیر و حدیث میں اپنا مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے تفسیر ثنائی کے نام سے قرآن کی مشہور تفسیر لکھی۔

شاگردوں کی فہرست

مولاناعبدالحلیم شاشی قاسمی ہزاروی کشمیری جنھوں نے 1308ھ میں شیخ الہند مولانامحمودالحسن رح سے شرف تلمذحاصل کیا

کتابیات

  • سید محبوب رضوی۔ تاریخ دار العلوم دیوبند۔ جلد دوم (1981 ایڈیشن)۔ دیوبند: دار العلوم دیوبند 
  • محمد طیب (1990)۔ The Role of Shaikh-Ul-Hind Maulana Mahmud-Ul-Hasan in the Indian Freedom Movement [تحریک آزادئ ہند میں شیخ الھند مولانا محمود حسن کا کردار] (ایم فل)۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 

حوالہ جات


Text submitted to CC-BY-SA license. Source: محمود حسن دیوبندی کے شاگردوں کی فہرست by Wikipedia (Historical)


INVESTIGATION