Aller au contenu principal

نصرت فتح علی خان


نصرت فتح علی خان


استاد نصرت فتح علی خان (پیدائش: 13 اکتوبر 1948ء | وفات: 16 اگست 1997ء) عظیم پاکستانی قوال، موسیقار ، موسیقی ڈائریکٹر اور بنیادی طور پر قوالی کے گلوکار تھے۔ نصرت فتح علی خان کو اردو زبان میں صوفی گلوکار اور جنوبی ایشیاء کے سب سے بڑے قوالی کے گلوکار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ انھوں نے پاپ و کلاسیکی موسیقی کو یک جاں کرکے موسیقی کو نئی جہت بخشی۔ انھیں "شہنشاہ قوالی" بھی کہا جاتا ہے۔ انھوں نے اپنی پہلی پرفارمنس ریڈیو پاکستان کے سالانہ موسیقی کے پروگرام ’جشن بہاراں‘ کے ذریعے دی۔ ان کی پہلی کامیاب قوالی ’’حق علی علی‘‘ تھی جو دنیا بھر میں ان کی شناخت کا باعث بنی ۔ نصرت فتح علی خان زیادہ تر اُردو، پنجابی جبکہ کبھی کبھی فارسی، برج بھاشہ اور ہندی زبان میں بھی گاتے تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں متعدد البم ریلیز کیے، جس میں قوالی کے 125 آڈیو البم شامل ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج کیا گیا۔ نصرت فتح علی خان فیصل آباد میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے ان کے خاندان نے قیام پاکستان کے وقت مشرقی پنجاب کے ضلع جالندھر سے ہجرت کرکے فیصل آباد میں سکونت اختیار کی تھی۔ استاد نصرت فتح علی خان نے اپنی تمام عمر قوالی کے فن کو سیکھنے اور اسے مشرق و مغرب میں مقبول بنانے میں صرف کر دی۔ انھوں نے صوفیائے کرام کے پیغام کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا اور ان کے فیض سے خود انھیں بے پناہ شہرت نصیب ہوئی۔

1964ء میں والد کی وفات کے بعد انھوں نے موسیقی کی تربیت اپنے چچا استاد مبارک علی خان سے حاصل کی ۔ 1971 اپنے چچا مبارک فتح علی خان کی وفات کے بعد وہ قوالی پارٹی کے سربراہ بنے۔ ابتدائی کامیابی کے بعد اورینٹل سٹار ایجنسیز ، برمنگھم ، انگلینڈ نے 1980 کی دہائی میں ان کے ساتھ معائدہ کیا۔ نصرت فتح علی خان نے یورپ ، ہندوستان ، جاپان ، پاکستان اور امریکا میں کئی فلمی البمز ریلیز کیے، وہ مغربی فنکاروں کے ساتھ تعاون اور تجربات میں مصروف رہے اور ایک مشہور عالمی میوزک آرٹسٹ بن گئے۔ انھوں نے 40 سے زیادہ ممالک میں پرفارم کیا۔ قوالی کو مقبول بنانے کے علاوہ، انھوں نے جنوب ایشیائی موسیقی پر بھی گہرا اثر ڈالا اور انھوں نے پاکستانی پاپ ، ہندوستانی پاپ اور بالی ووڈ موسیقی کو بھی جدید استوار پر لے کر آئے۔

آپ کے دادا افغانستان کے درالحکومت کابل کے رہنے والے پٹھانوں کی شاخ نورزئی سے تعلق رکھتے تھے جو بعد میں ہندوستان کے صوبے مشرقی پنجاب کی شہر جالندھر میں آ بسے۔ ان کے پاس صوتی صلاحیتوں کی ایک غیر معمولی حد تھی اور وہ کئی گھنٹوں تک اعلیٰ درجے کی شدت میں قوالی پیش کر سکتے تھے۔ نصرت فتح علی خان کو 2016ء میں ایل اے ہفت روزہ نے اب تک کا چوتھا عظیم گلوکار بتایا تھا۔

ابتدائی زندگی اور کیریئر

نصرت فتح علی خان کے خاندان کا تعلق پنجاب، بھارت کے شہر جالندھر کی بستی شیخ درویش سے تھا۔ ان کا خاندان تقسیم کے بعد پاکستان آ گیا۔ نصرت فتح علی خان کے آبا و اجداد نے وہاں موسیقی اور گانا سیکھا اور اسے بطور پیشہ اپنایا۔ نصرت فتح علی خان، فتح علی خان کے پانچ بچوں میں پہلے بیٹے تھے۔ نصرت فتح علی خان کی چار بڑی بہنیں اور ایک چھوٹے بھائی فرخ فتح علی خان ہیں۔ نصرت فتح علی خان وسطی فیصل آباد میں پلے بڑے ہوئے تھے۔ خان کے خاندان میں قوالی کی روایت تقریباً 600 سالوں سے نسل در نسل چل رہی ہے۔ ابتدا میں، ان کے والد نہیں چاہتے تھے کہ نصرت فتح علی خان اس خاندانی پیشے کو اپنائیں۔ فتح علی خان اپنے بیٹے کو ڈاکٹر یا انجینئر بنانا چاہتے تھے کیونکہ انھیں لگا کہ قوالی گانے والے فنکاروں کی معاشرتی حیثیت کم ہے۔ تاہم، نصرت فتح علی نے قوالی میں اس قدر دلچسپی ظاہر کی کہ آخر کار ان کے والد انکار نہ کر پائے۔ پاکستان میں نصرت فتح علی خان کا پہلا تعارف اپنے خاندان کی روایتی رنگ میں گائی ہوئی ان کی ابتدائی قوالیوں سے ہوا۔ ان کی مشہور قوالی ’علی مولا علی‘ انہی دنوں کی یادگار ہے۔ بعد میں انھوں نے لوک شاعری اور اپنے ہم عصر شعرا کا کلام اپنے مخصوص انداز میں گا کر ملک کے اندر کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور اس دور میں ’سن چرخے مٹھی مٹھی کوک ماہی مینوں یاد آوندا‘ اور ’سانسوں کی مالا پہ سمروں میں پی کا نام‘ نے بے گناہ شہرت حاصل کی اور یوں نصرت فتح علی خان کا حلقہ اثر وسیع تر ہوتا گیا۔

نصرت فتح علی خان نے16برس کی عمر میں اپنے والد کے چہلم کے موقع پر زندگی میں پہلی بار پرفارمنس دی۔ 1971 اپنے چچا مبارک فتح علی خان کی وفات کے بعد وہ قوالی پارٹی کے سربراہ بنے۔

1960 کی دہائی میں فیصل آباد کے صوفی بزرگ سائیں محمد بخش عرف لسوڑی شاہ کے دربار پر نصرت فتح علی خان نعتیہ اور عارفانہ کلام پڑھا۔ قوالی پارٹی کے سربراہ کے طور پرنصرت فتح علی خان کی پہلی عوامی کارکردگی ریڈیو پاکستان کے زیر اہتمام سالانہ میوزک فیسٹیول کے ذریعے ایک سٹوڈیو ریکارڈنگ تھی۔ ان کی پہلی کامیاب قوالی ’’حق علی علی‘‘ تھی جو دنیا بھر میں ان کی شناخت کا باعث بنی ۔

پیدائش

پیدائش کے وقت نصرت فتح علی خان صحت مند اورگول مٹول تھے۔ان کے والد نے ان کا نام پرویز رکھ دیا ۔ ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو ڈاکٹر بنائیں۔ نصرت فتح علی خان نیکر پہن کر، گلے میں بستہ ڈال ک بڑے اعتماد سے اسکول جاتے تھے۔ اسکول سے فارغ ہو کر گھرآتے تو ماسٹر عبد العزیز انھیں پڑھاتے۔ ایک بزرگ غلام غوث صمدانی نے ان کا نام پرویز سے تبدیل کر کے نصرت رکھا تھا۔

ابتدائی کامیابیاں

1985ء کے موسم گرما میں، نصرت فتح علی خان نے لندن میں میوزک، آرٹس اینڈ ڈانس (WOMAD) فیسٹیول میں پیشکش کی۔ انھوں نے 1985 اور 1988 میں پیرس میں پرفارم کیا۔ انھوں نے پہلی بار 1987 میں جاپان فاؤنڈیشن کی دعوت پر جاپان کا دورہ کیا۔ انھوں نے جاپان میں 5ویں ایشیائی روایتی پرفارمنگ آرٹ فیسٹیول میں پرفارم کیا۔ انھوں نے 1989 میں بروکلین اکیڈمی آف میوزک ، نیویارک میں بھی پرفارم کیا، جس سے انھیں امریکی سامعین سے داد ملی۔ نصرت فتح علی خان ،کو اپنے پورے کیرئیر میں، عالم لوہار ، نور جہاں ، اے آر رحمان ، آشا بھوسلے ، جاوید اختر اور لتا منگیشکر جیسے کئی جنوب ایشیائی گلوکاروں اور موسیقاروں کے ساتھ کام کیا۔ 1992 سے 1993 کے تعلیمی سال میں، خان یونیورسٹی آف واشنگٹن ، سیئٹل ، واشنگٹن ، ریاستہائے متحدہ میں ایتھنو میوزیکولوجی کے شعبہ میں وزٹنگ آرٹسٹ تھے۔

پیٹر گیبریل کے ساتھ کام

1988 میں، نصرت فتح علی خان نے پیٹر گیبریل کے ساتھ دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ کے ساؤنڈ ٹریک پر کام کیا، جس کی وجہ سے خان کو گیبریل کے البم حقیقی دنیا کے لیے پر سائن کیا گیا۔ انھوں نے حقیقی دنیا البم کے ذریعے روایتی قوالی کے پانچ البمز ریلیز کیے اور مزید البمز مست مست (1990)، نائٹ سونگ (1996) اور بعد از مرگ ریمکس البم اسٹار رائز (1997) پر بھی کام کیا۔

برطانیہ میں پرفارمنس اورشہرت

برطانیہ میں پرفارمنس 1989 میں، برمنگھم میں اورینٹل سٹار ایجنسیز لمیٹڈ کے ذریعے شروع کی، نصرت فتح علی خان نے موسیقار اینڈریو کرسٹی اور پروڈیوسر جانی ہینس کے ساتھ زیلا ریکارڈنگ اسٹوڈیوز میں 'فیوژن' ٹریکس کی ایک سیریز پر تعاون کیا جس نے نصرت فتح علی خان اور پارٹی کو " بگ ورلڈ کیفے " کے چینل 4 کرسمس اسپیشل میں شامل کیا۔ 1989 میں نصرت فتح علی خان نے سلوو کے ایک سکھ گوردوارے میں سکھ عقیدت کی موسیقی پیش کی، مسلمانوں کی سکھ مندروں میں بھجن کرنے کی روایت کو جاری رکھا۔

1990 میں، بی بی سی نے نیٹ ورک ایسٹ نصرت فتح علی خان کے لیے ایک پورا پروگرام وقف کیا گیا۔ اس کے بعد نصرت فتح علی خان کو بگ ورلڈ کیفے نے اینڈریو کرسٹی اور وائلن بجانے والے نائیجل کینیڈی کو شو میں اللہ ہو لائیو پرفارم کرنے کے لیے مدعو کیا۔

مزید کامیابیاں

نصرت فتح علی خان کوکینیڈین گٹارسٹ مائیکل بروک اور متعدد دیگر مغربی موسیقاروں اور راک موسیقاروں نے اپنے ساتھ کام کرنے کے لیے مدعو کیا۔ 1995 میں نصرت فتح علی خان نے پرل جیم کے مرکزی گلوکار ایڈی ویڈر کے ساتھ ڈیڈ مین واکنگ کے ساؤنڈ ٹریک کے لیے دو گانوں کی موسیقی دی۔2002 میں، گیبریل نے اپنے البم "سگنل ٹو نوائس" پر خان کی آوازیں شامل کیں۔ خان کے البم '' ان ٹوکسیکیٹیڈ اسپیریٹ'' کو 1997 ء میں بہترین روایتی لوک البم کے لیے گریمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔ اسی سال، ان کے البم نائٹ میوزک کو بھی بہترین ورلڈ میوزک البم کے گریمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔

لالی ووڈ اور بالی ووڈ کے لیے کام

نصرت فتح علی خان نے متعدد پاکستانی فلموں میں گانے گائے اور ان میں خود بھی پرفارم کیا۔ اپنی موت سے کچھ عرصہ قبل، انھوں نے بالی ووڈ کی تین فلموں کے لیے موسیقی ترتیب دی، جس میں فلم ''اور پیار ہو گیا'' میں انھوں نے فلم کی مرکزی جوڑی کے ساتھ آن اسکرین "کوئی جانے کوئی نہ جانے" اور "زندگی جھوم کر" کے لیے گانا گایا۔ انھوں نے فلم کارتوس کے لیے موسیقی بھی ترتیب دی جہاں انھوں نے ادت نارائن کے ساتھ "عشق دا رتبہ" اور "بہا نہ آنسو" جیسے گانے بھی گائے۔ بالی ووڈ کے لیے ان کی آخری میوزک کمپوزیشن فلم کچے دھاگے کے لیے تھی جہاں انھوں نے "اس شان کرم کا کیا کہنا" میں گایا تھا۔ یہ فلم ان کی موت کے دو سال بعد 1999 میں ریلیز ہوئی ۔ بالی ووڈ کی دو گلوکار بہنوں، آشا بھوسلے اور لتا منگیشکر نے ان گانے گائے جو انھوں نے بالی ووڈ میں اپنے مختصر دور میں بنائے تھے۔ انھوں نے سنی دیول کی فلم دلّی کے لیے "سیا ں بھی ساتھ جب چھوڑ جائے" بھی گایا۔ یہ گانا خان کی موت کے دو سال بعد 1999 میں ریلیز ہوا تھا۔ انھوں نے 2000 میں ریلیز ہونے والی بالی ووڈ فلم دھڑکن کا گانا "دولہے کا سحر" بھی گایا۔

خان نے 1997 کے البم وندے ماترم میں گانا "امن کے گرو" میں تعاون کیا، جسے اے آر رحمان نے ترتیب دیا تھا اور اسے ہندوستان کی آزادی کی 50ویں سالگرہ کا جشن منانے کے لیے ریلیز کیا گیا تھا۔ بعد از مرگ خراج تحسین کے طور پر،اے آر رحمان نے '' گروس آف پیس کے نام'' سے ایک البم جاری کیا جس میں نصرت فتح علی خان کا گایا ہوا "اللہ ہو" شامل تھا۔ فلم گرو کے لیے اے آر رحمن کا 2007 کا گانا " تیریے بیا " بھی نصرت فتح خان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔

کم عمر نوجوان دنیائے موسیقی میں شہنشاہِ قوالی کیسے بنا؟

سنہ 1960ء کی دہائی میں فیصل آباد کے صوفی بزرگ سائیں محمد بخش عرف لسوڑی شاہ کے دربار پر ایک کم عمر نوجوان نعتیہ اور عارفانہ کلام پڑھ رہا ہے۔ لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ یہ نوجوان دنیائے موسیقی میں ’شہنشاہِ قوال‘ بن جائے گا۔ یہ کم عمر لڑکا اپنے سُروں کی پختگی اور لے کی اٹھان میں اتنی مہارت رکھتا تھا کہ اسے سننے والے اس کے سحر میں کھو جاتے تھے۔ قیام پاکستان سے قبل انڈیا کے شہر جالندھر سے ہجرت کر کے آئے پٹیالہ گھرانے کے اس سپوت کا نام تھا نصرت فتح علی خان جس نے آنے والے عشروں میں اپنے فن میں وہ عروج حاصل کیا جس کی صرف تمنا ہی کی جا سکتی تھی۔ نصرت نے بچپن ہی سے موسیقی کو اپنا جنون بنا لیا تھا اور صرف 10 برس کی عمر میں ہی وہ طبلہ بجانے پر کمال کی مہارت حاصل کر چکے تھے۔ 1960ء کی دہائی کے شروع میں اپنے والد استاد فتح علی خان کی وفات کے بعد انھوں نے قوالی کی باقاعدہ تربیت اپنے چچا استاد مبارک علی خان اور استاد سلامت علی خان سے لینا شروع کی اور ستر کی دہائی میں استاد مبارک علی خان کے انتقال کے بعد اپنے قوال گھرانے کی سربراہی کے اہل ہو گئے۔ فیصل آباد کے مشہور جھنگ بازار کے ایک دربار سے اپنے فنی سفر کا آغاز کرنے والے اس ہیرے پر میاں رحمت نامی جوہری کی نظر پڑی جو قیام پاکستان کے وقت سے ہی فیصل آباد میں گراموفون ریکارڈز کی دکان کے مالک تھے۔ ان کے نصرت کے والد استاد فتح علی خان کے ساتھ پہلے سے مراسم تھے۔

گانے والا تھک گیا، نصرت کا طبلہ نہیں رُکا

میاں اسد جو رحمت گراموفون ریکارڈنگ سٹوڈیو کے مالک میاں رحمت کے صاحبزادے ہیں، نصرت سے متعلق بتاتے ہیں کہ ان کی بے شمار ایسی یادیں ہیں جو آج بھی ان کے ذہن کے دریچوں میں تازہ ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد میاں رحمت نصرت کے گھرانے کو 1960ء کی دہائی سے جانتے تھے۔ 'سب سے پہلے میرے والد کی ملاقات نصرت کے والد فتح علی خان سے ہوئی تھی جو اس وقت فیصل آباد کے مشہور قوال تھے۔' وہ بتاتے ہیں کہ 'نصرت سے میرے والد کی شناسائی تو ان کے پجپن سے ہی تھی مگر ستر کی دہائی میں جب انھوں نے باضابطہ طور پر اپنے چچا استاد مبارک کے انتقال کے بعد اپنے قوال گھرانے کی سربراہی سنبھالی تو میرے والد نے نصرت کو بطور فنکار نوٹس کرنا شروع کیا۔‘ میاں اسد کا کہنا ہے کہ 'آغاز میں نصرت فیصل آباد کے ایک صوفی بزرگ سائیں محمد بخش المعروف بابا لسوڑی شاہ کے دربار پر نعتیہ کلام پڑھتے اور قوالی گایا کرتے تھے۔ ان کی رہائش گاہ بھی اس دربار کے سامنے ہی تھی۔' میاں اسد کے مطابق استاد نصرت نے قوالی سے قبل طبلہ بجانے کی تربیت حاصل کی تھی اور وہ بہت مہارت کے ساتھ طبلہ بجاتے تھے۔ ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے جو انھوں نے اپنے والد سے سن رکھا ہے میاں اسد بتاتے ہیں کہ

کلام منتخب کرنا، پڑھنا نصرت نے سکھایا

میاں اسد کا کہنا ہے کہ زمانہ طالب علمی سے ہی نصرت فتح علی خاں کے ساتھ رحمت گراموفون ریکارڈنگ سٹوڈیو یا گھر پر ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ تاہم ’نصرت کے ساتھ باضابطہ طور پر میرا پیشہ وارانہ تعلق سنہ 1992ء میں قائم ہوا جب وہ اپنے والد کے کاروبار میں ان کا ہاتھ بٹانے لگے۔‘ وہ کہتے ہیں' ابا جی سے ان کے قصے اور باتیں سنتے رہتے تھے، ان سے غیر رسمی ملاقاتیں بھی ہوتی رہتی کبھی دکان پر تو کبھی ہمارے گھر پر۔'

میاں اسد بتاتے ہیں کہ رحمت گراموفون میں ریکارڈ کی گئیں نصرت فتح علی خان کی چند ابتدائی قوالیوں میں سے ایک 'یاداں وچھڑے سجن دیاں' اور دوسری 'علی مولا، علی مولا' تھیں جو دنیا بھر میں بہت مقبول ہوئی میاں اسد کے مطابق ان کے والد میاں رحمت ستر کی دہائی کے آخر اور اسی کی دہائی کے اوائل میں نصرت کو اپنے ریکارڈنگ سٹوڈیو لے آئے جہاں سے انھوں نے اپنی قوالیوں اور غزلوں کی ریکارڈنگ کا آغاز کیا اور پھر ترقی اور شہرت کی منزلوں کو چھوتے گئے۔

میاں اسد کے مطابق رحمت گراموفون ہاؤس ریکارڈنگ کمپنی نے نصرت کے ایک سو سے زائد میوزک البمز ریکارڈ کرکے مارکیٹ میں ریلیز کیے۔ جن میں صوفی بزرگ بابا بلھے شاہ کا کلام 'کی جاناں میں کون' سمیت متعدد دوسرے کلام شامل ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ 'اگر نصرت اور رحمت گراموفون کے تعلق اور سفر کو یاد کرنے بیٹھے تو ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو چلتا رہے گا۔' ایسے ہی ایک اور شخص الیاس حسین ہیں جو نصرت کی جوانی سے ان کے شاگرد اور ان کی قوال پارٹی میں بطور پرومپٹ خدمات انجام دیتے آئے ہیں۔ واضح رہے کہ پرومپٹ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی شو یا ریکارڈنگ کے دوران مرکزی قوال کے پیچھے بیٹھے کلام یا غزلوں کی کتاب تھامے قوال کو اگلے مصرعے یاد کرواتا یا بتاتا ہے۔

58 سالہ الیاس حسین ان کی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں 'ہمارا خاندان فتح علی خان کے گھرانے میں کئی پشتوں سے خدمات کرتا آیا ہے۔ میں سنہ 1975ء سے نصر ت فتح علی خان کو جانتا ہوں، تب میں اسکول جاتا بچہ تھا اور والد کے ساتھ ان کے گھر کام کاج کرنے جاتا تھا۔ میں ان کا شاگرد تھا، سنہ 1983ء سے 1997ء میں ان کی وفات تک ان کی قوال پارٹی میں شامل رہا۔' ان کا کہنا ہے کہ 'میرے دادا اور والد بھی ان کے گھرانے کے شاگرد تھے، ہمیں اس گھرانے سے عشق تھا۔'

وہ بتاتے ہیں کہ دس برس کی عمر سے جب میں نے وہاں جانا شروع کیا تو کچھ عرصے بعد ہی مجھے استاد فرخ فتح علی خان جو راحت فتح علی خان کے والد ہیں نے کہا کہ میں پرومپٹ کا کام کرنا سیکھوں۔ آہستہ آہستہ مجھے استاد نصرت اور فرخ فتح علی خان نے یہ سکھانا شروع کر دیا۔' وہ بتاتے ہیں بعد میں ’کلام کو منتخب کرنا اور پڑھنا لکھنا مجھے استاد نصرت فتح علی خان نے سکھایا۔' الیاس حسین یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ رحمت گراموفون میں ریکارڈ کروائی جانے والی مشہور قوالی میں سے 'لجپال نبی میرے درداں دی دوا' اور غزلوں میں سے 'یاداں وچھڑے سجن دیاں آیاں انکھیاں چو میہنہ وسدا' بھی دیگر سینکڑوں کے ساتھ شامل ہیں۔

ایوارڈ اور لقب

نصرت فتح علی خان کو وسیع پیمانے پر تاریخ کا سب سے اہم قوال مانا جاتا ہے۔ خان کو تاریخ کا سب سے اہم قوال سمجھا جاتا ہے۔ 1987ء میں انھیں پاکستانی موسیقی میں ان کی خدمات کے لیے صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس کا ایوارڈ ملا۔ 1995ء میں انھیں یونیسکو میوزک پرائز ملا۔ 1996ء میں انھیں مونٹریال ورلڈ فلم فیسٹیول میں سینما کے فن میں غیر معمولی شراکت کے لیے گراں پری ڈیس امریکس سے نوازا گیا۔ اسی سال خان کو فوکوکا ایشین کلچر پرائز کا آرٹس اینڈ کلچر پرائز ملا۔ جاپان میں انھیں بڈائی یا "سنگنگ بدھا" کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا۔ .

1997ء میں بہترین روایتی لوک البم اور بہترین ورلڈ میوزک البم کے لیے دو گریمی ایوارڈز کے لیے نامزد ہوئے۔ 1998ء میں انھیں پی ٹی وی لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 2001ء تک ان کے پاس "سب سے زیادہ قوالی ریکارڈنگز" کا گنیز ورلڈ ریکارڈ تھا۔ 2005ء میں خان کو بعد از مرگ یو کے ایشین میوزک ایوارڈز میں "لیجنڈز" ایوارڈ ملا۔ ٹائم میگزین کا 6 نومبر 2006ء کا شمارہ، "ایشیائی ہیروز کے 60 سال" انھیں پچھلے 60 سالوں میں سرفہرست 12 فنکاروں میں درج کیا۔ وہ 2010ء میں این پی آر کی 50 عظیم آوازوں کی فہرست میں بھی شامل ہوئے۔ اگست 2010ءء میں وہ سی این این کی گذشتہ پچاس سالوں کے بیس سب سے مشہور موسیقاروں کی فہرست میں شامل ہوئے۔ 2008ء میں خان UGO کی اب تک کے بہترین گلوکاروں کی فہرست میں 14ویں پوزیشن پر تھے۔ خان کو ان کے 25 سالہ موسیقی کیرئیر کے دوران کئی اعزازی القابات سے نوازا گیا۔ انھیں اپنے والد کی برسی کے موقع پر لاہور میں ایک تقریب میں کلاسیکی موسیقی پیش کرنے کے بعد استاد (ماسٹر) کا خطاب دیا گیا۔ خان کو رولنگ اسٹون کی 200 بہترین گلوکاروں کی فہرست میں 91 ویں پوزیشن پر رکھا گیا تھا، جو 1 جنوری 2023ء کو شائع ہوئی تھی۔

خراج تحسین اور میراث

نصرت فتح علی خان کو اکثر "موسیقی دنیا" کا ایک پیش کنندہ قرار دیا جاتا ہے۔ 13 اکتوبر 2015ء کو گوگل نے خان کی 67 ویں سالگرہ کو چھ ممالک بھارت ، پاکستان ، جاپان ، سویڈن ، گھانا اور کینیا میں اپنے ہوم پیج پر گوگل ڈوڈل کے طور پر منایا۔ گوگل کا کہنا ہے کہ اپنی لیجنڈری آواز کی بدولت خان نے 'عالمی موسیقی' کو دنیا کے سامنے لانے میں مدد کی۔

نصرت فتح علی خان کو قوالی میں اپنے مخصوص جوش و خروش کے لیے سراہا گیا، وہ قوالی کو دنیا میں مقبول بنانے والے پہلے اور سب سے اہم فنکاروں میں سے ایک تھے۔ وہ اپنی طاقتور آواز سے 10 گھنٹے تک گا سکتے تھے نے پورے یورپ میں ان کی موسیقی کا جنون پیدا کیا۔ مغربی جریدےایشیا ویک کی الیگزینڈرا اے سینو نے لکھاکہ:

نصرت فتح علی خان کی آوازمیں جادو تھا۔ 25 سالوں تک، انھوں نے صوفیانہ کلام گایا۔ گو کہ یہ عرصہ لمبا نہیں تھالیکن انھوں نے جس انداز میں قوالی پیش کی، ان کے دور کے کسی اور نے نہیں کیا۔ اس کی آواز کی حد، اصلاح کا ہنر اور سراسرکی شدت بے مثال تھی۔

جیف بکلی نے نصرت فتح علی خان کے بارے میں کہا کہ "وہ میرا ایلوس پریسلے ہے"۔نصرت فتح علی خان نے بے شمار دوسرے نامور گلوکاروں اور موسیقکاروں جن میں نادیہ علی ، زین ملک ، مالے ، پیٹر گیبریل ، اے آر رحمان ، شیلا چندرا ، علیم قاسموف ، ایڈی ویڈر ، جان اوسبورن ، میک جیگر جیسے گلوکاروں، پرمیشور گودریج جیسے سوشلائٹس، امیتابھ بچن ، ٹرڈی اسٹائلر ، شان پین ، سوسن سارینڈن اور ٹم رابنز جیسے لوگوں کے ساتھ کام کیا اور انھوں نے بھی ان کی موسیقی کو سراہا۔

پال ولیمز نے اپنی کتاب ''20ویں صدی کی سب سے کامیاب فنکار'' جو 2000 میں شائع ہوئی کی فہرست میں نصرت فتح علی خان کو بھی شامل کیا۔ نصرت فتح علی خان خان کے گانوں کے 2002 کے البم جوائے فل نائز میں "مکی مدنی" میں ان کے بھتیجے راحت فتح علی خان کی پرفارمنس شامل ہے۔ 2005 کے سونگ لائنز میں نصرت فتح علی خان کے دو گانوں، "صاحب تیری بندی" اور "مکی مدنی" کا ایک مجموعہ شامل ہے۔ 2007 میں، الیکٹرانک میوزک پروڈیوسر اور پرفارمر گاڈی نے ، رحمت گراموفون ہاؤس سے بیک کیٹلاگ ریکارڈنگز تک رسائی حاصل کرنے کے بعد، موجودہ آوازوں کے ارد گرد مکمل طور پر نئے گانوں کا البم جاری کیا۔ معروف جریدے رولنگ اسٹون نے استاد نصرت فتح علی خان کو تاریخ انسانی کے 200 عظیم ترین گلوکاروں کی فہرست میں شامل کیا۔

بین الاقوامی کامیابی

آپ صحیح معنوں میں شہرت کی بلندیوں پر اس وقت پہنچے جب پیٹر جبریل کی موسیقی میں گائی گئی ان کی قوالی ’دم مست قلندر مست مست‘ ریلیز ہوئی۔ اس مشہور قوالی کے منظر عام میں آنے سے پہلے وہ امریکا میں بروکلن اکیڈمی آف میوزک کے نیکسٹ ویوو فیسٹول میں اپنے فن کے جوہر دکھا چکے تھے، لیکن ’دم مست قلندر مست مست‘ کی ریلیز کے بعد انھیں یونیورسٹی آف واشنگٹن میں موسیقی کی تدریس کی دعوت دی گئی۔بین الاقومی سطح پر صحیح معنوں میں ان کا تخلیق کیا ہوا پہلا شاہکار 1995ء میں ریلیز ہونے والی فلم ’ڈیڈ مین واکنگ‘ کا ساؤنڈ ٹریک تھا۔ بعد میں انھوں نے ہالی وڈ کی فلم ’دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ‘ اور بالی وڈ میں پھولن دیوی کی زندگی پر بننے والی متنازع فلم ’بینڈٹ کوئین‘ کے لیے بھی موسیقی ترتیب دی۔ نصرت فتح علی خان نے جدید مغربی موسیقی اور مشرقی کلاسیکی موسیقی کے ملاپ سے ایک نیا رنگ پیدا کیا۔ اور نئی نسل کے سننے والوں میں کافی مقبولیت حاصل کی۔

مقبول ثقافت میں

خان کے مشہور قوالی گانوں میں سے "تیرے بن نہیں لگدا" اور ''سنگم'' جو ہندوستانی گیت نگار جاوید اختر کے ساتھ ایک مشترکہ البم تھی کی بھارت میں ایک ملین کاپیاں سے زائد کاپیاں فروخت ہوئیں۔ لتا منگیشکر نے کچے دھاگے کے لیے "تیرے بن نہیں جینا" کا ایک متبادل گانا ریکارڈ کیا، جس میں اجے دیوگن ، سیف علی خان اور منیشا کوئرالا نے اداکاری کی۔ نصرت فتح علی خان کے کمپوز کردہ، کچے دھاگے کا ساؤنڈ ٹریک صرف بھارت میں تین ملین یونٹس فروخت ہوئے۔ برطانوی-ہندوستانی پروڈیوسر بالی ساگو نے "تیرے بن نہیں لگا" کا ایک ریمکس جاری کیا، جسے 2002 کی برطانوی فلم بینڈ اٹ لائک بیکہم میں دکھایا گیا۔ "تیرے بن" کے نام سے ایک کور ورژن راحت فتح علی خان نے آسیس کور کے ساتھ 2018 کی بالی ووڈ فلم سمبا کے لیے ریکارڈ کیا تھا۔

نصرت فتح علی خان کی موسیقی نے بالی ووڈ موسیقی پر بڑا اثر ڈالا، جس نے 1980 کی دہائی کے آخر سے بالی ووڈ میں کام کرنے والے متعدد ہندوستانی موسیقاروں کو متاثر کیا۔ نصرت فتح علی خان نے اے آر رحمان اور جاوید اختر کو اپنی قوالیوں سے بہت متاثر کیااور دونوں نے ان کے ساتھ تعاون کیا۔ بہت سے دوسرے ہندوستانی میوزک ڈائریکٹرزجنہوں نے ہٹ فلمی گانے بنائے نصرت فتح علی خان کی موسیقی کا سرقہ کیا۔جن میں موہرہ (1994) میں وجو شاہ کا ہٹ گانا "تو چیز بڑی ہے مست مست" خان کے مقبول قوالی گانے " دم مست قلندر " سے سرقہ کیا گیا تھا۔

ان کی موسیقی ہالی ووڈ کی فلموں جیسے دی لاسٹ ٹیمپٹیشن آف کرائسٹ (1988)، نیچرل بورن کلرز (1994) اور ڈیڈ مین واکنگ (1995) کے ساؤنڈ ٹریکس پر بھی دکھائی دیتی ہیں۔

Giuseppe Zanotti Luxury Sneakers

لازوال گیت اور قوالیاں

نصرت فتح علی خان نے متعدد البم ریلیز کیے، جس میں قوالی کے 125آڈیو البم شامل ہیں۔ اس وجہ سے آپ کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی درج کیا گیا۔ نصرت فتح علی خان کے مشہور گیتوں میں’اکھیاں اڈیکدیاں‘،’ایس توں ڈاڈا دکھ نہ کوئی‘،’آفریں آفریں‘،’میرے رشک قمر‘،’میری زندگی ہے تو‘وغیرہ شامل ہیں۔ یوں تو ان کے تمام تر کلام ہی اپنی مثال آپ ہیں لیکن ’’تم اک گورکھ دھندا ہو‘‘ اپنی مثال آپ ہے۔

  • شکوہ / جواب شکوہ
  • میرا پیا گھر آیا
  • دم مست قلندر مست مست
  • یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے
  • زِحالِ مسکیں مکن تغافل (فارسی)
  • رنگ
  • حق علی علی مولا علی علی
  • نی میں جانا جوگی دے نال
  • چل میرے دل کھلا ہے مے خانا
  • یاداں وچھڑے سجن دیاں آیاں
  • علی د ملنگ میں علی دا

وفات

نصرت فتح علی خان کا وزن 137 کلوگرام (300 پاؤنڈ)سے زیادہ تھا۔ امریکی ریکارڈنگ کے ترجمان کے مطابق، استاد نصرت کئی مہینوں سے شدید بیمار تھے۔ جگر اور گردے کی تکلیف کے علاج کے لیے اپنے آبائی وطن پاکستان سے لندن جانے کے بعد، انھیں ہوائی اڈے سے لندن کے کروم ویل اسپتال پہنچایا گیا۔ استاد نصرت کا انتقال 16 اگست 1997ء کو 48 سال کی عمر میں، کرول ویل ہسپتال میں اچانک دورہ قلب سے ہوا۔ ان کی میت کو فیصل آباد واپس بھیج دیا گیا اور وہیں دفن کیے گئے۔ نصرت فتح علی خان کی اہلیہ، ناہید نصرت کا انتقال 13 ستمبر 2013ء کو کینیڈا کے شہر انٹاریو کے مسسی ساگا کے کریڈٹ ویلی اسپتال میں ہوا۔ اپنے شوہر کی وفات کے بعد ناہید کینیڈا چلی گئی تھیں۔ ان کی ایک بیٹی ندا خان ہے۔ نصرت فتح علی خان کی موسیقی کی میراث کو اب ان کے بھتیجوں راحت فتح علی خان اور رضوان معظم نے آگے بڑھایا ہوا ہے۔

بیرونی روابط

  • ’رب سے ہمکلام کر دینے والا نصرت
  • نصرت فتح علی خان سے دو ملاقاتیں
  • سنیئے نصرت فتح علی خان کوآرکائیو شدہ بذریعہ sangeetradio.com

حوالہ جات


Text submitted to CC-BY-SA license. Source: نصرت فتح علی خان by Wikipedia (Historical)